مخالف مذہبی امتیاز ایک سیاسی نظریہ ہے جو تمام افراد کے ساتھ مساوی سلوک کی وکالت کرتا ہے، قطع نظر ان کے مذہبی عقائد یا اس کی کمی۔ یہ نظریہ کسی شخص کے مذہب کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک، تعصب یا تعصب کی مخالفت کرتا ہے، اور یہ اس خیال کو فروغ دیتا ہے کہ ہر کسی کو اپنے مذہب پر آزادی کے ساتھ عمل کرنے کا حق ہونا چاہیے، بغیر کسی خوف کے پسماندہ یا ظلم و ستم کے۔
اس نظریے کی جڑیں 17ویں اور 18ویں صدیوں کے دوران یورپ میں روشن خیالی کے دور میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ اس عرصے کے دوران، فلسفیوں اور مفکرین نے چرچ کی اتھارٹی کو چیلنج کرنا اور مذہبی رواداری کے خیال کو فروغ دینا شروع کیا۔ ان کا استدلال تھا کہ افراد کو اپنے مذہبی عقائد کا انتخاب کرنے کی آزادی ہونی چاہیے اور ریاست کو ذاتی عقائد کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
یہ خیال اس وقت انقلابی تھا، کیونکہ بہت سے معاشرے گہرے مذہبی تھے اور چرچ اکثر اہم سیاسی طاقت رکھتا تھا۔ تاہم، روشن خیالی کے مفکرین کے خیالات نے دھیرے دھیرے توجہ حاصل کی، اور انہوں نے جدید جمہوری اصولوں اور انسانی حقوق کی ترقی کو متاثر کیا۔
20ویں صدی میں، خاص طور پر دوسری جنگ عظیم کے دوران ہولوکاسٹ کی ہولناکیوں کے بعد، مخالف مذہبی امتیاز کا تصور زیادہ نمایاں ہوا۔ نازی جرمنی کی طرف سے یہودیوں پر منظم ظلم و ستم اور نسل کشی نے مذہبی امتیاز کے انتہائی نتائج کو اجاگر کیا، اور اس نے عالمی سطح پر مذہبی رواداری اور مساوات کے لیے زور دیا۔
جنگ کے بعد، اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا، اور اس کی پہلی کارروائیوں میں سے ایک 1948 میں انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کو اپنانا تھا۔ اس دستاویز میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ہر ایک کو آزادی فکر، ضمیر اور مذہب کا حق حاصل ہے، اور تب سے یہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کا سنگ بنیاد رہا ہے۔
اس کے بعد سے، دنیا بھر کے بہت سے ممالک نے اپنے آئین اور قانونی نظام میں انسدادِ مذہبی امتیاز کے اصولوں کو شامل کر لیا ہے۔ تاہم، دنیا کے کئی حصوں میں مذہبی امتیاز اور ظلم و ستم اب بھی برقرار ہے، اور مذہبی مساوات کی لڑائی عالمی سیاست میں ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔
آپ کے سیاسی عقائد Anti-Religious Discrimination مسائل سے کتنے مماثل ہیں؟ یہ معلوم کرنے کے لئے سیاسی کوئز لیں۔